لمحہ لمحہ سلگتی ہوئی زندگی کی مسلسل قیامت میں ہیں
ہم ازل سے چمکتی ہوئی خواہشوں کی طلسمی حراست میں ہیں
اس کے کہنے کا مفہوم یہ ہے کہ یہ زندگی آخرت عکس ہے
اب ہمیں سوچنا ہے کہ ہم لوگ دوزخ میں ہیں یا کہ جنت میں ہیں
تجھ سے بچھڑے تو آغوشِ مادر میں‘پھر پاؤں پر ‘پھر سفر درسفر
دیکھ پھر تجھ سے ملنے کی خواہش میں کب سے لگاتار ہجرت میں ہیں
بس ذرا سا فرشتوں کو بھی سمتِ ممنوعہ کی خواہشیں بخش دے
اور پھر دیکھ یہ تیرے بے لوث بندے بھی کتنی اطاعت میں ہیں
اُس طرف سارے بے فکر اوراق خوش ہیں کہ بس حرفِ آخر ہیں ہم
اِس طرف جانے کتنے مفاہیم پوشیدہ اک ایک آیت میں ہیں
منتظر ہے وہ لمحہ ہمارا‘ ہمارے سب اعمال نامے لیے
اور ہم بسترِ زندگی پر بڑے ناز سے خوابِ غفلت میں ہیں