لکیروں میں کسی کا عکس نظر آنے لگا ہے
نگاہوں میں کسی کا نقش ابھر آنے لگا ہے
سرگوشیاں کرتی صبا مجھ سے پوچھتی ہے
خیالوں میں ہمارے کون مسکرانے لگا ہے
مجھ سے یہی سوال فضا پوچھ رہی ہے
آنکھوں میں کون سپنے سجانے لگا ہے
نظر سے ہو کے آج میرے دل کے راستے
وہ آ کے تصور میں مسکانے لگا ہے
عظمٰی وہ جفا کیش، ستم شعار مہرباں
کیوں آج میرے دل کو بہلانے لگا ہے