وطن میرا ہر روز لہو لہان ہوتا ہے
خون مادر وطن پر قوم کا ہر رو ز بہتا ہے
حاکم جو ہے میرا پھر بھی گہری نیند سوتا ہے
قوم کے بہتے لہو کے ہر قطرے کا بدلہ لینے کا
ہر دھماکے کے بعد میرا سپہ سالار کہتا ہے
کبھی جواب دینے کا حق محفوظ رہتا ہے
کبھی لاشوں کا معاوضہ ورثہ میں تقسیم ہوتا ہے
سینکڑوں لوگوں کو دہشتگر د ماردیتے ہیں
اور سینکڑوں کو علاج ہی میسر نہیں ہوتا
جگہ جگہ تھانے ، چوکیاں اور چیک پوسٹیں ہیں
مگر دور دور تک شفاء خانہ دیکھائی نہیں دیتا
پختہ کشادہ سڑکیں جاتی ہے حاکموں کے محلوں تک
شفا ء خانوں تک پہنچنے کا کوئی راستہ دیکھائی نہیں دیتا
نہ جانے کب تک بہے گا خون ارض پاک پر میری
وہ جو حق محفوظ رکھا ہے وہ کب استمال ہوگا
نہ جانے کون دے گا جواب کوئی دیکھائی نہیں دیتا
وطن پاک پر ابرہہ کا بدمست لشکر حملہ آور ہے
میرے معبود ابابیلوں کی چونچ میں کنکر کیوں نہیں دیتا