لہو میں رنگ سخن اس کا بھر کے دیکھتے ہیں
Poet: عامر سہیل By: مصدق رفیق, Karachiلہو میں رنگ سخن اس کا بھر کے دیکھتے ہیں
چراغ بام سے جس کو اتر کے دیکھتے ہیں
ملائمت ہے غزل کی سی اس کی باتوں میں
یہ بات ہے تو چلو بات کرکے دیکھتے ہیں
صحیفۂ لب و رخسار و پیرہن اس کا
تلاوتوں میں ہیں پتے شجر کے دیکھتے ہیں
بلا کے نامے ہیں دو سیپیائی آنکھوں میں
گریز و گردش و غمزے نظر کے دیکھتے ہیں
بلائیں لیتے ہوئے حسن بے نہایت کی
تری طرف ترے عشاق ڈر کے دیکھتے ہیں
چراغتے ہیں کسی نظم کے گھنے ابرو
کسی غزل کی جدائی میں مر کے دیکھتے ہیں
ٹھہر گیا ہو نہ آواز پا تری سن کر
سو دل پہ رعشہ زدہ ہاتھ دھر کے دیکھتے ہیں
کرختگی ہے نہ خود رفتگی نہ فہمائش
مزاج بدلے ہوئے ہم سفر کے دیکھتے ہیں
رکے ہوئے ہیں بہت لوگ دیکھنے کے لیے
سو ہم بھی شعبدے اس خواب گر کے دیکھتے ہیں
بھری ہے رنج کی بارش سے عمر کی کاریز
ہم ایک کونے میں بیٹھے ہیں گھر کے دیکھتے ہیں
اب اٹھ بھی جائے کوئی خواب گاہ گریہ سے
وہ پو پھٹی وہ منارے سحر کے دیکھتے ہیں
یہ سیمیائی بدن خواب نیم شب تو نہیں
سو خال و خد کی تمازت کو ڈر کے دیکھتے ہیں
اے تیرے سبزۂ رخسار کی دلآویزی
نواح چشم سے آنسو گزر کے دیکھتے ہیں
کٹی ہے عمر غزل زادگاں کی صحبت میں
انہی کے کوچے میں آخر بکھر کے دیکھتے ہیں
مشقتی ہیں ترے کاخ و کوئے ہجر کے ہم
شراب ہجر پیالے میں بھر کے دیکھتے ہیں
جھکائے کاندھوں کو عشاق پا بہ گل کی طرح
نڈھال پیاس سے ہم لوگ تھر کے دیکھتے ہیں
بلا کا قحط ہے سیلاب ہے تعطل ہے
کوئی وطن ہے مناظر غدر کے دیکھتے ہیں
ہو اذن سنگ لحد کے طواف کا عامرؔ
طیور اڑتے ہوئے کاشغر کے دیکھتے ہیں
چلی ہے تہمت و تکذیب کی ہوا عامرؔ
سو شہر خاک و خبر میں ٹھہر کے دیکھتے ہیں
پر یہ امکان بھی اب زخمِ گُماں بن بیٹھا
کچھ نظر آئے تو لگتا ہے وہی تُو شاید
کچھ نہ ہو سامنے، تو دردِ جہاں بن بیٹھا
عشق؟ ہاں، عشق بھی اک کھیل سا لگتا ہے مجھے
جس میں ہر وار پہ دل ہی بے زباں بن بیٹھا
میں نے خود کو تری چاہت میں مٹا کر دیکھا
اب وہ خالی سا وجودِ ناتواں بن بیٹھا
کون سنتا ہے یہاں شورِ سکوتِ دل کو
میں ہی اک شمع تھا، خود خاکِ دھواں بن بیٹھا
میں نے مانا تھا کہ احساس ہی پوجا ٹھہرے
پر یہ احساس بھی اب ترکِ زباں بن بیٹھا
تُو اگر خواب میں آئے تو اجالہ پھیلاؤ
ورنہ خوابوں کا ہر اک زخمِ نہاں بن بیٹھا
ایک چہرہ تھا مرے دل کی دعا کے اندر
اب وہی چہرہ مرا دشتِ فغاں بن بیٹھا
کبھی لگتا ہے کہ میں خود سے جدا ہو جاؤں
اور کبھی خود ہی مرا سائۂ جاں بن بیٹھا
میں نے سوچا تھا تری یاد سے جا پاؤں کبھی
پر وہی یاد مرا عینِ اماں بن بیٹھا
اسدؔ اب یاد بھی آتی ہے تو جلتا ہوں میں
جیسے ماضی کوئی خنجر کی زباں بن بیٹھا
ہٹا دے تیرگی تنویر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں تھوڑی دیر میں اک جرم کرنے والا ہوں
تو ایسا کر مری تعزیر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں کتنے روز سے خط کی مہک کو ڈھونڈتا ہوں
سو جھوٹ موٹ کی تحریر میرے ہاتھ پہ رکھ
بہت سے لوگوں کے حق تُو دبا کے بیٹھا ہے
مشقتوں کا صلہ مِیر! میرے ہاتھ پہ رکھ
نہیں سدھرنا تو پھر ساری کوششیں بیکار
تو چاہے جتنی بھی تفسِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تو میرا دوست ہے شعروں کو میرے دیکھ ذرا
جو ہو سکے ہے تو تاثیر میرے ہاتھ پہ رکھ
مرا وجود تو یوں بھی ہے تیرے ایماء پر
مجھے تو ڈال کے زنجیر میرے ہاتھ پہ رکھ
معاملات ترے ساتھ طے کروں گا میں
مگر تُو پہلے تو کشمیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تجھے بھی ہو مری بے کیفیوں کا اندازہ
کبھی تو دل کو ذرا چِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
کہانیاں نہ رہیں اب، نہ رنگ آمیزی
محبتوں کی اساطیر میرے ہاتھ پہ رکھ
رشیدؔ اس کے عوض جھونپڑی نہ چھوڑوں گا
بھلے تو ساری ہی جاگیر میرے ہاتھ پہ رکھ
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں






