اب تیرے شہر سے بھی گذرنا کمال ہے
"مر کر بھی اب سفر سے نکلنا محال ہے"
ہم سے نہ ہو گی اب یہ محبت بھی پھر کبھی
اپنے لیے تو یہ بھی شکاری کا جال ہے
ہم جانتے ہیں شہر کے ہر اک مکین کو
انگلی اٹھائے ہم پہ یہ کس کی مجال ہے
شکوہ نہ کر کہ اب ترا کوئی نہیں رہا
اس وقت تھا عروج ترا اب زوال ہے
پہرے لگے ہوئے ہیں زباں پر بھی اب یہاں
سچ بات کوئی بولے یہ کس کی مجال ہے
ملنے کی پھر امنگ کیوں اس کے دل میں ہے
لگتا ہے پھر نئی یہ کوئی اس کی چال ہے
میرا نہیں رہا مگر اک بات سچ کہوں
میرے لیے تو اب بھی وہی بے مثال ہے