لے آۓ زمانے کو چنجر کی نوک پے
ہے اب کٹنے کو شہ رگ اپنی ہی حرکت سے
زمیں سے فلک تلک ہیں پھیلاۓ جال ہم نے
الجھے اب قدم جال میں اپنی ہی چال سے
لے سانس دُھواں چھوڑ سانس دُھواں دُھواں
گرد و نواح میں غبار تیرے اپنے ہی فتور سے
بنا رضا اسکی نکل نہ سکے کرہ ارض کےمدار سے
پھر رکھے خواہش نکل سکے گَردُوں کے حصار سے