مال و متاع نہ دہر میں عزت کے واسطے
میں نے لکھا ہے سب تری الفت کے واسطے
جو کچھ بیاں کیا ہے مرے دل کا حال ہے
میرے سخن نہیں مری شہرت کے واسطے
کب مفلسوں کو دیتا ہے عزت کوئ یہاں
زندہ ہیں یہ بے چارے تو ذلت کے واسطے
اپنے لیے تو لوگ سبھی سوچتے ہیں پر
سوچا نہیں کسی نے بھی ملت کے واسطے
جھوٹی انا کی بھینٹ چڑھی کتنی بیٹیاں
اہنوں پہ ظلم ہوتا ہے غیرت کے واسطے
دل آیا بھی تو کیسے ستم گر پہ کیا کہیں
جو پیار بھی کرے ہے تو نفرت کے واسطے
دنیا سمیٹ کر بھی پریشاں ہے کس قدر
اس نے سکون کھویا ہے دولت کے واسطے
زاہد غرور تو مری فطرت میں ہی نہیں
رہتا ہوں دور سب سے میں خلوت کے واسطے