مال و دولت کے لئے اور نہ انا کی خاطر
جنگ لڑنی ہے ہمیں اپنی بقاء کی خاطر
روشنی کے لئے سب لوگ جلاتے ہونگے
ہم جلاتے ہیں دیئے صِرف ہوا کی خاطر
رکھ دئیے اُس نے ہتھیلی پہ کھنکتے سکے
وہ ہتھیلی کہ جو پھیلی تھی دعا کی خاطر
جرم اتنا تھا مرا تم سے محبت کی تھی
پِستی آئی ہوں میں اِس ایک خطا کی خاطر
یہ رِدا سر کی جو غیرت کا نشاں ہوتی ہے
کتنے سر کٹ گئے اِس ایک رِدا کی خاطر
بے زباں ہم کو سمجھ بیٹھے وہ انجانے میں
ہم تو خاموش تھے بس اپنی حیا کی خاطر
سچ ہے گر جرم زمانے کی نظر میں عذراؔ
ہم بھی تیار ہیں ہر ایک سزا کی خاطر