مانگتا ہے

Poet: رشید حسرت By: رشید حسرت, کوئٹہ

حقِیر جانتا ہے، اِفتخار مانگتا ہے
وہ زہر بانٹتا ہے اور پیار مانگتا ہے

ذلِیل کر کے رکھا اُس کو، اُس کی بِیوی نے
(ابھی دُعا میں) مِعادی بُخار مانگتا ہے

ابھی تو ہاتھ میں اُس کے ہے خاندان کی لاج
گریباں سب کے جو اب تار تار مانگتا ہے

بِچھا کے رکھتا ہے وہ سب کی راہ میں کانٹے
صِلے میں لوگوں سے پُھولوں کے ہار مانگتا ہے

میں اپنے وعدے پہ قرضہ چُکا نہِیں پایا
مُعافی دِل سے ابھی شرمسار مانگتا ہے

حواس جب سے مِلے تب سے اِضطراب میں ہُوں
مِرے خُدا، مِرا دِل بھی قرار مانگتا ہے

امیرِ شہر نے چِھینا ہے مُنہ کا لُقمہ بھی
پِھر اُس پہ قہر ابھی اعتبار مانگتا ہے

ابھی یہ اہلِ سِیاست کے بس کا روگ نہِیں
ابھی یہ مُلک نیا شہسوار مانگتا ہے

بجا کے طائرِ چشمِ حسین ہے مشّاق
دل و نظر کا مگر یہ شکار چاہتا ہے

میں دیکھتا ہوں کہ زلفیں تری سنوارتا ہوں
ہے خواب اچّھا مگر انتظار مانگتا ہے

رشِیدؔ اُن پہ مِرا نغمہ کارگر ہی نہِیں
یہ گیت وہ ہے کہ جو دِل کے تار مانگتا ہے
 

Rate it:
Views: 255
26 Feb, 2023
More Sad Poetry
ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے یہاں لیکن
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
MAZHAR IQBAL GONDAL