مرے ہمدم
میرے ساتھی
زمیں کی گود سے سورج نے اپنا سر نکالا ہے
حسیں کرنوں کی بارش سے
سیاہی دھل چکی ہے
اور پھر دنیا کا چہرہ کھل چکا ہے
ہوائیں بند دروازے پہ دستک دے رہی ہیں
مجھ کو واپس لوٹ جانا ہے
اسی گمنام وادی میں
جہاں سورج نہیں جاتا
سنو جاناں!
وہ سپنے جو ہماری ملکیت تھے
اس کو الماری میں تم رکھ لو
وہ لمحے جو کبھی اک دوسرے کے ساتھ گزرے تھے
سجا دینا اسے گلدان میں
ادھوری خواہشوں کا اک الگ البم بنا لینا
یہ آنسو جو مرے جانے پر تیری آنکھوں میں آئے ہیں نا
ان کو امیدوں کے کسی سوکھے ہوئے گل پر چھڑک دینا
میں اپنے لوٹ آنے کے
سبھی وعدے سبھی قسمیں کو رکھ دیتا ہوں الماری کے اک محفوظ خانے میں
پھر اس کو لاک کر کے
چابی اپنے ساتھ لے جاؤں گا
کہ صدیوں بعد جب لوٹا تو
یہ احساس تو ہوگیا
؛کہ میرا پیار سچا تھا