اب نہ کہنا کہ بے خبر ہوں میں
اب نہ کہنا کہ مجھ میں درد نہیں
اب نہ کہنا کہ بے نظر ہوں میں
آنکھ کھولوں تو یہ دنیا دیکھوں
تیری دنیا سے بے خودی اچھی
ہوش میں آؤں بھی تو کیا دیکھوں
ورکشاپوں میں کام کرتے ہوئے
نچلے طبقے کے بےقدر بچے
کیا لکھوں کہ دل پگھلتا ہے
انکو دیکھوں تو خون جلتا ہے
وقت کی بے آواز چکی میں
پسی ہوئی ہیں جن کی آرزوئیں
انکے دل بھی تو دھڑکتے ہونگے
یہ گرد آلود بے وقعت چہرے
کسی کی آنکھ کے تارے ہونگے
یہ داغ داغ جسم اور دھواں دھواں آنکھیں
انکو بھی کوئی چومتا ہو گا
انکے اندر بھی تو معصومیت ہے
ان سے بھی کوئی کھیلتا ہو گا
یہ ناتواں بازو یہ ننھے ننھے ہاتھ
کتابیں انکا مقدر نہ ہوئیں
صبح صادق کی نکلتی کرنیں
ان غریبوں کی تو سحر نہ ہوئیں
خوشی کی ایک ساعت کی خاطر
انکی صدیاں نثار ہوتی ہیں
انکی معصوم بے نوا سوچیں
راستوں کا غبار ہوتی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔ انکو دیکھوں تو خون جلتا ہے
کیا بتاؤں کہ دل پگھلتا ہے
کیا یہ انسان وہ انسان نہیں
جسکو سجدہ کیا فرشتوں نے
پھر یہ اس لوح میں ترمیم کیسی
پھر یہ طبقات کی تقسیم کیسی
ایک وہ ہیں کہ اک اشارے پر
ساری خوشیاں خرید لاتے ہیں
ایک یہ ہیں چند کھلونوں کو
عمر بھر دیکھ بھی نہ پاتے ہیں
ہوش میں آؤں بھی تو کیا دیکھوں
تیری دنیا سے بے خودی اچھی
سب کی تقدیر کا کاتب تو ہے
سب کا معبود تو ہے رب تو ہے
تو پھر یہ لوح میں ترمیم کیسی
پھر یہ طبقات کی تقسیم کیسی
کیسی دنیا ہے یہ تیری دنیا
ابھی تک راہ فراموش میں ہوں
یہ نہ کہنا کہ بے نظر ہوں میں
مجھے تیری قسم میں ہوش میں ہوں