یہ جو ہم میں تم میں ہے فاصلہ
تنہائیوں کا مل کر بھی سلسلہ
یہ محض کوئی انا کی جنگ نہیں
شاہد ہے تقدیر کا ہی فیصلہ
بیٹھ کر تیرے دو بدو
کرتی ہوں خود سے گفتگو
کیا یہ ہی وہ شخص ہے
جس کی مجھے تھی جستجو
سوال ہیں پر جواب نہیں
مزید اب کوئی خواب نہیں
پڑھ رہی ہوں بے سبب
میری پسند کی کتاب نہیں
زندگی بہت اداس ہے
سب کچھ تو ہمارے پاس ہے
سب کچھ مگر کچھ نہیں
دونوں کو احساس ہے
دعا جو میری مقبول ہے
دعاکے سبب ہی یہ نزول ہے
اگر ہے یہ رب کی ہے رضا کنولؔ
مجھے قبول ،مجھے قبول ہے