مجھے لگتا ہے اِک پل بھی تمہارے بِن سزا جیسے
تم آتے ہو تو ہو جاتا ہے دِل کو آسرا جیسے
تمہاری زندگی میں اب ہماری حیثیت کیا ہے
پرانے طاق میں رکھا ہوا کوئی دیا جیسے
سماعت دیتی رہتی ہے مجھے تنہائی میں دھوکا
مجھے اکثر لگا کہ تم نے کچھُ مجھ سے کہا جیسے
یقیں مجھ کو نہیں اِس کا مگر اکثر یہ لگتا ہے
کہ پیچھا کر رہی ہو میرا کوئی بد دُعا جیسے
گو توُ ہم میں نہیں باقی مگر لگتا ہے ماں مجھ کو
ہر اِک نعمت تمہاری ہی دُعا کی ہو عطا جیسے
شبِ تنہائی میں یادیں تِری یوں جگمگاتی ہیں
ہتھیلی پر مِری رکھا ہو اِک روشن دیا جیسے
ہم ایسے زندگی کی راہ میں بھٹکا کیۓ عذراؔ
پراۓ شہر میں کوئی مسافر بے نوا جیسے