مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
مجھ سے پہلی سی محبت مری نہ مانگ
میں نے سمجھا تھا تو ہے تو در خشاں ہے حیات
تیرا غم ہے تو غم داہر کا جھگڑا کیا
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے
تو جو مل جاے درخشاں ہے حیات
تو جو مل جاے تقدیر نگوں ہو جاے
یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جاے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کمخاب میں بنواے ہوے
جا بجا بکتے ہوے کوچہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوۓ خون میں نہلاے ہوۓ
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجیے
اب بھی دلکش ہے تیرا حسن مگر کیا کیجیے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
رقیب سے
آکہ وابستہ ہیں اس حسن کی یادیں تجھ سے
جس نے اس دل کو پری خانہ بنا رکھا تھا
جس کی الفت میں بھلا رکھی تھی دنیا ہم نے
داہر کو داہر کا افسانہ بنا رکھا تھا
آشنا ہیں تیرے قدموں سے وہ راہیں جن پر
اس کی مدحوش جوانی نے عنایت کی ہے
کارواں گزرے ہیں جن سے اسی رعنای کے
جس کی ان آنکھوں نے بے سود عبادت کی ہے
مجھ سے کھیلی ہیں وہ محبوب ہوایں جن میں
اس کے ملبوس کی افسردہ مہک باقی ہے
تجھ پہ بھی برسا ہے اس بام سے مہتاب کا نور
جس میں بیتی ہوی راتوں کی کسک باقی ہے
تونے دیکھی ہے وہ پیشانی وہ رخسار وہ ہونٹ
زندگی جن کے تصور میں لٹا دی ہم نے
تجھ پہ اٹھی ہیں وو کھوی ہوی ساحر آنکھیں
تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے
ہم پہ مشترکہ ہیں احسان غم الفت کے
اتنے احسان کہ گنواوں تو گنوا نہ سکوں
ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے کیا سیکھا ہے
جز تیرے اور کو سمجھاؤں تو سمجھا نہ سکوں
عاجزی سیکھی غریبوں کی حمایت سیکھی
یاس و حرمان دکھ درد کے معنی سیکھیں
زیر دستوں کے مصا ب کو سمجھنا سیکھا
سرد آہوں کے رخ زرد کے معنی سیکھے
جب کہیں بیٹھ کے روتے ہیں وہ بے کس جن کے
اشک آنکھوں میں بلکتے ہوے سو جاتے ہیں
نا توانوں کے نوالوں پے جھپٹتے ہیں عقاب
بازو تولے ہوے منڈلاتے ہوے آتے ہیں
جب کبھی بکتا ہے بازار میں مزدور کا گوشت
شاہراوں پہ غریبوں کا لہو بہتا ہے
آگ سی سینے میں رہ رہ کے ابلتی ہے نہ پوچھ
اپنے دل پر مجھے قابوہی نہیں رہتا ہے