تجھے لاکھ بھلانا
چاہوں لیکن بھلا نہیں سکتی
تیرے ساتھ گذری محبتیں
رقص کرتی ہیں
کیسے اپنی آنکھوں سے
اشکوں کو ختم
کردوں تیرے لوٹ
آنے کی صدائیں رقص
کرتی ہیں
میں تنہائیوں کے
اندھیروں کو لوٹ تو
جاؤں گی
میری ہتھیلی پہ ھمشہ
تیری دعائیں ر قص
کرتی ہیں
میں تو وفا پہ مٹ جاؤں
گی تجھ سے نا
کروں گی مطالبہ وفا کا
جب بھی مانگی وفا
ہر دفعہ تیری جفائیں
ر قص کرتی ہیں
اسے کہہ دو میں
نا کر سکوں گی ہمسفر
سے محبت کہ
میری زندگی میں
محبت کی سزائیں رقص کرتی ہیں
خوشبو اس کے سخت
حصار کی اب
تک مہک رہی ہے
کہ میں اک نازک پھول
تھی اور مجھ
میں ادائیں رقص کرتی
ہیں