مجھ پر تری نظروں کا جو احساں نہیں ہوتا

Poet: عارف نقشبندی By: مصدق رفیق, Karachi

مجھ پر تری نظروں کا جو احساں نہیں ہوتا
ہاتھوں سے مرے چاک گریباں نہیں ہوتا

خالی کبھی کانٹوں سے گلستاں نہیں ہوتا
کانٹوں سے کبھی پھول پریشاں نہیں ہوتا

کچھ درد ہو کچھ سوز ہو کچھ نور ہو دل میں
بس خاک کا پتلا ہی تو انساں نہیں ہوتا

اے دوست سمجھتا ہوں تری پرسش غم کو
باتوں سے کبھی درد کا درماں نہیں ہوتا

کیوں اس کو مرے چاک گریباں کی خبر ہو
گیسو بھی کبھی جس کا پریشاں نہیں ہوتا

اے برق جہاں سوز تجھے یہ بھی خبر ہے
عاشق کا نشیمن کبھی ویراں نہیں ہوتا

ہر پھول کو دیکھوں یہ ہے آوارہ نگاہی
ہر نقش میں تو جلوۂ جاناں نہیں ہوتا

ممنون کرم ایک زمانہ ہے ہمیں کیا
ہم پر تو کبھی آپ کا احساں نہیں ہوتا

کھلتا ہے کوئی راز نہاں دیکھ چمن میں
غنچوں کا یوں ہی چاک گریباں نہیں ہوتا

پھولوں سے بہل جاؤں وہ دیوانہ نہیں ہوں
کانٹوں سے الجھنے کو تو داماں نہیں ہوتا

موجوں کو بنا لیتا ہوں میں اپنا سفینہ
طوفاں بھی مرے سامنے طوفاں نہیں ہوتا

میں جن پہ فدا ہوں وہی جلوے ہیں نظر میں
آئینہ تجھے دیکھ کے حیراں نہیں ہوتا

کس منزل دشوار میں ہوں عشق کی عارفؔ
ان سے بھی مرے درد کا درماں نہیں ہوتا
 

Rate it:
Views: 156
24 Apr, 2025
More Sad Poetry
ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے یہاں لیکن
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
MAZHAR IQBAL GONDAL