مجھ پر یہ مہر ستم سہی، کہیں اور عنایت ہو سو ہو
مجھے تم سے کوئی گلہ نہیں تم کو شکایت ہو سو ہو
کوئی بھولا بھالا لگتا ہے کوئی تیز طرار دکھائی دے
ہم کو کیا کوئی کیسا ہے جو کسی میں سیاست ہو سو ہو
ہم اپنے آپ میں رہتے ہیں ہمیں اپنے آپ سے مطلب ہے
اپنے اس طرز ادا پہ کسی کو ہم سے عدوات ہو سو ہو
کوئی دل کا سودا کرتا ہے کوئی جان کا مول لگاتا ہے
انسانوں کی اس بستی میں یہ عجب تجارت ہو سو ہو
جبر و ظلمت کی بستی میں کب تک پر کاٹے جائیں گے
ایسے میں اگر اس بستی میں جو ہو تو بغاوت ہو سو ہو
کوئی روک نہیں کوئی ٹوک نہیں جو چاہیں لکھتے جاتے ہیں
ان جھوٹی سچی خبروں سے بد نام صحافت ہو سو ہو
عثمٰی یہ بھی سچائی ہے اس دنیا میں مطلب کے لئے
اک پل میں جھٹک دی جاتی ہے برسوں کی رفاقت ہو سو ہو