فاصلے لمحوں میں سمٹ جاتے ہیں
محبتوں کے قافلے جب لوٹ آتے ہیں
راہزن سے پوچھ لو سفر کی داستاں
تیرا ذکر آتے ہی ہم سمٹ جاتے ہیں
انھیں کہہ دوں قاصد کہ اب تو رحم کرے چراغوں پر
جل جل کر اب وہ بے چین نظر آتے ہیں
تہی دست بھی ہوں جھولی بھی ہے خالی میری یا رب
مجھ گنہگار پر پھر بھی تیر ے کرم چلے آتے ہیں
یہ مسلسل ہے جو مہیت اداسی مجھ پر صاحب
ماضی سے حال ۔ حال سے شام کے مستقبل نظر آتے ہیں
لفضوں میں ہی سمٹ جاتے ہیں پہاڑو ں کے دکھ اکثر
یوں تا ریکی میں بھی روشنی کے استعارے نظر آتے ہیں