محبتیں مجھ پر برستی ہیں بارشوں کی صورت
میں لاکھ اس سے دور ہو جاؤں
وہ مجھ میں مہکتا ہے
خوشبو بن کر
میں جب بھی ترک تعلقات کا بہانہ ڈھونڈتی ہوں
وہ پھوار بن کر شبنم کی صورت
مجھے پھر سے ہرا جاتا ہے
عجب دھوپ چھاؤں سا مزاج ہے اسکا
کبھی ہجر کی تپتتی دوپہر میں وصال بن کر آتا ہے
کبھی وصال کے پرکیف لمحوں مییں بھی
ہجر کی تلخی میں رہتا ہے
یہ بادلوں کا شور
کبھی مدھم مدھم آہٹ
اور یہہ مہکی پیاری ہوائیں
مجھے بے چین کر دیتی ہے
اسکی باتوں کی سرسراہٹ آج بھی
کانوں میں گونجتی ہے
اور مجھے بے بس ر دیتا ہے اسکا دھیما دھیما
پیارر میں ڈوبا لہجہ مجھے بہکا دیتا ہے