فلک سے پستیوں میں کھو چکے ہیں
محبت سے ضرورت ہو چکے ہیں
یقیں کی لاش اٹھانا کب تھا آساں
مگر یہ بوجھ بھی ہم ڈھو چکے ہیں
کسی کو زحمتِ ماتم نہی دیں گے
خود اپنی مرگ پر ہم روچکے ہیں
ثمر کل نسلِ آئندہ کا ہوگا
وفا کے بیج تو ہم بو چکے ہیں
ابھی بیدار اپنا حوصلہ ہے
ہُوا کیا گر مقدر سو چکے ہیں
چمکتے ہیں درودیوارِ دل اب
کہ عاشی داغ دل کے دھو چکے ہیں