رات کے دشمن آنکھ میں آ کر
نیند کی ناؤ ڈبو جاتے ہیں
( شاہدہ حسن)
زندگی ڈوب گئی غم کے جو طوفانوں میں
میرے سینے میں سمندر بھی اتر جاتا ہے
( منظور قادر پروانہ)
سائبان تجھ کو بناؤں تو بدن اور جلے
تری پرچھائیں میں سورج کی تمازت دیکھوں
( جازب قریشی)
شاید اسی باعث وہ فروزاں ہے ابھی تک
سورج نے کبھی رات کی ظلمت نہیں دیکھی
( شہزاد احمد)
پڑا خون جگر ہمیں پینا
عمر بھر کا عذاب ہے جینا
( اختر صدیقی)
ہمارا اس سے تعلق تو کچھ نہیں تھا مگر
ہم اپنے دل کو یونہی بےقرارکر بیٹھے
( اختر امان)
کسی جگہ نہ ملی چھاؤں مامتا جیسی
اگرچہ راہ میں لاکھوں شجر دکھائی دئیے
(اقبال ارشد)
ابھی تک متظر کوئ دریچے میں تمہارا ہے
مرے کانوں میں کہتی ہے ہوا آہستہ آہستہ
( افضل علوی)
ہم نے ناز اٹھائے جن کے
جانے اب وہ ہو گئے کن کے
( واقف قادری)
اڑتے اڑتے آس کا پنچھی دور افق میں ڈوب گیا
روتے روتے بیٹھ گئی آواز کسی سودائی کی
( قتیل شفائی یا ناصر کاظی)