نزد شہ رگ وہ کہہ رہا کیا ہے
کبھی تم نے بھی کچھ سنا کیا ہے
سر جھکانے کا ادعا کیا ہے
دل نہ جب تک جھکے وفا کیا ہے
لوگ تو دل بھی توڑ دیتے ہیں
آئینوں ہی کا ٹوٹنا کیا ہے
میرا فن میرے عہد کی تاریخ
مجھ کو ماضی واسطہ کیا ہے
عزم ہے جب دیے جلانے کا
پھر ہوا سے پوچھنا کیا ہے
دل سے چھٹنے لگے اندھیرے نوید
اس تبسم میں نور سا کیا ہے