مرے پروں میں ہے بےکل اُڑان کی خواہش
اک آسماں سے نئے آسمان کی خواہش
گھٹن سدا ہی دروبامِ آرزو پہ رہی
مچل رہی ہے کھلے سائبان کی خواہش
کسی بھی رشتے کی نسبت سے جو، نہ ہو میرا
جو صرف میرا ہو، ہے اس مکان کی خواہش
ہر اک تمنا کو درگور کرتی ہے عورت
عزیز رکھتی ہے بس خاندان کی خواہش
ہر ایک سانس مری نذرِ کشمکش کب تک؟۔
نہ حوصلہ ہے , نہ اور امتحان کی خواہش
مرا جہان ہمیشہ رہے مرے دل میں
یہی بہت ہے نہیں کل جہان کی خواہش
روایتوں میں جو ملتا نہیں, ملا وہ یقین
ہو کس لیے مجھے پھر داستان کی خواہش
یہ عشق میری شریعت بھی ہے طریقت بھی
فنا طلب ہُوں نہیں کچھ نشان کی خواہش
سما کے مجھ میں جِلا اُس نے بخش دی عاشی
جگائی پیکرِ بے جاں میں جان کی خواہش