مستی میں مجھ کو جھوم کر ایسے ہوا نے چھو لیا
کملائے سے اک پھول جیسے صبا نے چھو لیا
یہ دیکھ کر منظر حسیں کچھ چاند بھی شرما گیا
مہکی ہوئی سانسوں کو بہکی ادا نے چھو لیا
پھر محفلوں میں شہر کی ہونے لگی شامِ غزل
پھر دل کے تاروں کو محبت کی صدا نے چھو لیا
برسات ہوئی ٹوٹ کر آنکھیں برسنے لگ گئیں
بادل کا بڑھ کے ہاتھ جب پاگل گھٹا نے چھو لیا
ادنیٰ سی لو ہے شمع پرواز ہے اونچی یتری
ماہتاب کی کرنوں کو بھی تیری ضیا نے چھو لیا