اے مصحفی میں بیٹھا اب کیوں نہ خاک چھانوں
دل سا عقیق میں نے اس کی گلی میں کھویا
گر تو نہ ہو پیارے کیا کام یہاں ہمارا
آتے ہیں اس گلی میں ہر بار تیری خاطر
اے مصحفی تو ان سے محبت نہ کیجیو
ظالم غضب کی ہوتی ہیں یہ دلی والیاں
کوئے بتاں پہ میری چاروں طرف نظر ہے
شاید کوئی پری رو غرفے سے سر نکالے
تو در کو شوق سے رکھ بند پر نہ اتنا بھی
کہ آوے جو کوئی وہ ہو کے بدگمان پھر جائے
گر تیرے کوچے میں گالی بھی کسی نے ہم کو دی
ہم تیری خاطر سے اس کو بھی گوارا کر گئے
کرتی ہیں خون سینکڑوں عاشق کے مصحفی
جس وقت پان کھاتی ہیں یہ چونے والیاں