ملے ہیں درد مجھے تو وفا کے رستے میں
اکیلا چھوڑ گیا ہے بٹھا کے رستے میں
فراق و ہجر کی راتیں بہت رلائیں گی
بچھڑ گیا ہے مرا یار آ کے رستے میں
سہے ہیں ظلم و ستم آبلے ہیں پاؤں میں
کہانی ختم ہوئی ہے جفا کے رستے میں
نہیں ہے پاس سوا رب کے دیکھ لو آکر
لتا دیا ہے سبھی کچھ قضا کے رستے میں
جگر سے اپنے نچوڑا ہے خون تب جاکر
*چرغ ہم نے جلائے ہوا کے رستے میں*
تمام اپنا لٹادوں میں مال و زر شہزاد
کہ کاش ایسا ہو ممکن خدا کے رستے میں