مناظر ، شہر ، قصبے اجنبی ہیں
تخاطب ، لفظ ، لہجے اجنبی ہیں
یہ کیسی بے مروت سرزمیں ہے
یہاں سب کے رویے اجنبی ہیں
سمندر لگ رہا ہے اپنا اپنا
مگر اس کے جزیرے اجنبی ہیں
زمانے ہو گئے ہیں ساتھ رہتے
مگر ہم پھر بھی کتنے اجنبی ہیں
وہی الفاظ ہیں مانوس سارے
مگر مفہوم اب کے اجنبی ہیں
لکیریں اپنے ہاتھوں کی پریشاں
مقدر کے ستارے اجنبی ہیں
ہوئی منزل گریزاں جب سے انور
زمیں ناراض ، رستے اجنبی ہیں