منزل ملے گی ان کو جو ہمت بڑھائیں گے
منزل سے ہوں گے دور جو کھچڑی پکائیں گے
دشوار گر ہوں راہیں جو منزل کٹھن بھی ہو
بڑھتے ہوئے قدم کو نہ پیچھے ہٹائیں گے
الفت کے بیج دل میں تو بوتے ہی جائیں گے
نفرت کی جو خلیج ہے اس کو مٹائیں گے
جو بویا سو وہ کاٹا ملے جیسے کو تیسا
پیشِ نظر یہ بات ہو کیوں دکھ اٹھائیں گے
جو جاگے سو وہ پاوے، جو سووے سو وہ کھوئے
غفلت سے ہی تو زندگی میں باز آئیں گے
رکھے خدا جسے تو کوئی مار نہ سکے
جس کو خدا نہ رکھے وہ ناپید ہوجائیں گے
زخموں سے چور دل بھی جو اپنا ہی ہوجائے
راہِ وفا میں شکوہ نہ لب پر ہی لائیں گے
کوئی کبھی تو حال ہمارا جو پوچھ لے
بس حسرتوں کے داغ ہی اس کو دِکھائیں گے
یہ اثر کی تمنا یہی آرزو بھی ہے
نا آشنائے درد کو بسمل بنائیں گے