ایسا نہیں کہ کچھ بھی سمجھتا نہیں ہوں میں
رسوائیوں کے خوف سے کہتا نہیں ہوں میں
مجھ کو نہ روک پائیں گی راہوں کی سختیاں
منزل نظر میں رہتی ہے تھکتا نہں ہوں میں
ساقی نہ میکشی کا مری امتحان لے
ساغر ڈکار جاؤں بہکتا نہیں ہوں میں
تم کچھ سمجھ نہ پاؤ گے کہتے ہو بار بار
کیا ماجرہ ہے کہہ بھی دو بچہ نہیں ہو میں
آپس میں بھی رقیب مرے سب رقیب ہیں
ان کے معاملا ت میں پڑتا نیں ہوں میں
مال غریب کی نہ یوں بولی لگا ئیے
بیچوں ضمیر اتنا بھی سستا نہیں ہوں میں
نازک ہے میرا دل بھی حسن موم کی طرح
بس شمع کی طرح سے پگھلتا نہیں ہوں میں