منزل گر قبر ہے تو محلوں کی تمنا کیوں
اے انسان غفلت میں اتنا سونا کیوں
وصل و حجر کے قصے پڑھتے میں سوچ رہی ہوں
رشتوں کو تو بکھرنا ہے پھر ان کے لیے تڑپنا کیوں
اقبال کی سوچوں کا طوفاں
اور غالب کی تیکھی باتیں
میر کا احساس بیاں
اور فراز کا چلبلا پن
پھر پروین شاکر کی اولجھی باتیں
اور وصی کی ناکام محبت
اور نوشی کی وہ نظمیں
گر میسر نہیں تو پھر آج ہر ایک لکھاری کیوں
ہے اک دن مقرر جب ازل سے انصاف کا
تو پھر روز محشرکا تصور اتنا بے معنی کیوں
کچل دے گی پل میں قبر کی اندھیر نگری
اے انسان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہے جسم خاکی پر تیرا اتنا تکبر کیوں