منفرد رہنے کی ضد میں کیا بچا رہ جائے گا
ہم سفر تیرا فقط یہ راستہ رہ جائے گا
دے تو سکتا ہوں میں بھی اپنے دشمن کو جواب
سوچتا ہوں درمیاں پھر فرق کیا رہ جائے گا
ڈٌوب جاؤں گا کسی دن جس قدر آرام سے
اس قدر حیرت سے دریا دیکھتا رہ جائے گا
سوکھ جائیں گے سبھی دریا ہمارے دیس میں
یا تو رہ جائے گی سوہنی یا گھڑا رہ جائے گا
مانگنا بنتا ہے جس سے اس سے گر مانگا نہیں
مانگنے والا یہاں پر مانگتا رہ جائے گا
حوصلے ہی فیصلہ کرتے ہیں ہار اور جیت کا
یا ہوا رہ جائے گی، یا دیا رہ جائے گا
روح کے پنچھی کو اٌڑنا ہے اٌڑے گا ایک دن
جسم کے پنجرے کا اِک دن در کٌھلا رہ جائے