متروں کے پھیر سے فطرتوں کے کھیل سے ہو گئی میں من جلی حقیقتوں کے زہر سے غیبتوں کے سحر سے ہوگئی میں من جلی دُنیا کے اس گُلشن میں اب آرزو میں کیا کروں تمھاری نزاکتوں سے اپنی حماقتوں سے ہی ہوگئی میں من جلی