موج گل کے پیچھے پڑ کر کیوں دیوانی ہوئی ہے مٹی
ٹھوکر کھا کر خود آئے گا جس کی جہاں لکھی ہے مٹی
گلیاں گھپ ہیں میدان چپ ہیں اور وہ دیوانہ بھی نہیں
مٹی کا دل بیٹھ گیا ہے کس کی آج اٹھی ہے مٹی
آنکھیں آنسو دل بھی آنسو شاید ہم سر تا پا آنسو
تھوڑی مٹی اور ملا دے ابھی بہت ہے گیلی مٹی
مٹی کا ایک اور کھلونا زیست بنانے والی ہے
خاموشی سے دیکھ تو آؤ اس آنچل میں بندھی ہے مٹی
آہن جیسی دیواریں ہوں یا انسان کا جسم خاکی
مٹی کی فطرت آزادی ہے قید نہیں رہ سکتی مٹی
پچھلے سال یہیں بہت سی ٹوٹی قبریں منہ کھولے تھیں
دھرتی کے زخموں کو کتنی جلدی بھر دیتی ہے مٹی
میں ٹھہرا مٹی کا مادھو جادیوانی راہ لے اپنی
تو سونے چاندی کی مورت خود کو کیوں کرتی ہے مٹی
یہ جو دل سونا اک تر ہے پہلے اک پتھر کا بت تھا
صدیوں یہ آنکھیں روئی ہیں صدیوں تک بھیگی ہے مٹی
ہر ذرے میں راز نیا ہے گو مٹی کے تم ہو کھلونے
اک اک شعر میں بدر تمھارے جیسے بدل رہی ہے مٹی