حسن و جمال کی رعنایاں فرصت بخش رہے ہیں
غم زمانہ ذہن سے اب دور ہوتے جا رہے ہیں
خوشبو سے گلوں کی دماغ معطر ہو رہا ہے
شبنم کی مےشبانہ سے گل بدمست ہوۓ جا رہے ہیں
جمود طبیعت اور مایوسیاں زیست کی دور ہیں اب
پرکیف مناظر بہار کےمیرے دل کو بھا رہے ہیں
کیسا یہ عالم ہے کہ شجر پر ہے وجد سا طاری
کلیاں چٹک گئیں نئے نئے شگوفے نکل رہے ہیں
ہرے بھرے باغ چشموں سے بہتا شفاف پانی
بلبل نغمہ سرا ہے اور طیور چہچہا رہے ہیں
دلفریب سماں ہے طبیعت میں ہے بشاشت
ذی روح سبھی رب کی حمد و ثناء سنا رہے ہیں