لو پھر گرمی آ گئی ہے
کچھ اور صورت چھا گئی ہے
سردی کا دور ہوا رخصت
پھر ٹھنڈی چیز بھا گئی ہے
سورج کی تمازت ہائے توبہ
سب کو کیا نہلا گئی ہے
بازار سڑکیں ہوگئیں سونی
جلوہ یہ کیسا دکھا گئی ہے
نہر میں نہاتے چھوٹے بڑے
جی کو خوب بہلا گئی ہے
لسی پئیں کھائیں آئس کریم
یہ پیام ہمیں سنا گئی ہے
قدرت کے موسم ہیں سارے اچھے
یہ بات ہمیں سمجھا گئی ہے
چھت پہ سوئیں یا صحن میں
کسی کو اے سی میں سلا گئی ہے
ناصر نے لکھے چند اشعار
گرمی کی قربت یہ بتلا گئی ہے