مکاں سے لامکاں تک
زمیں سے آسماں تک
کوئی بے نام جذبہ
کوئی گمنام رستہ
ہمیں لے جائے گا یہ
یہاں سے اب کہاں تک
کوئی ان دیکھی خوشبو
نگاہوں کی زباں تک
کوئی انجانی خواہش
تخیل سے بیاں تک
لبوں کی خامشی سے
اظہار و بیاں تک
تسلسل کی زمیں سے
محرک آسماں تک
یہ ان دیکھے نظارے
ظاہر سے نہاں تک
یہ رازھائے دریدہ
پوشیدہ سےعیاں تک
تجسّس کے سفر سے
طلب کے کارواں تک
یہ اپنے طالبوں کو
نہ لے جائے وہاں تک
مکاں سے لامکاں تک
زمیں سے آسماں تک