تری طرف سے ابھی تک پیام آیا نہیں
ہنوز ملنے کوئی خاص و عام آیا نہیں
مجھے تو تجھ پہ یقیں تھا بھرے زمانے میں
مگر یہ دکھ ہے مرے تو بھی کام آیا نہیں
اجڑ گئے ہیں ترے بعد حسرتوں کے محل
کوئی بھی شمع جلانے غلام آیا نہیں
اسے تو سوچا مکمل تھا ہر گھڑی میں نے
وہ آدھا حصے میں آیا تمام آیا نہیں
شراب پی کے اٹھے ہیں تمہاری محفل سے
مرے لیے تو سِ بزم جام آیا نہیں
میں وشمہ کیسے گزاروں یہ رات فرقت میں
گزر گئی ہے اداسی لے کے شام آیا نہیں