میرا یہ عزم بھی دیکھو کہ طوفانوں میں پلتا ہوں
نہ ماتھے پر شکن اپنے ہوا کا رخ بدلتا ہوں
میرا یہ حوصلہ ہے مجھ سے بجلی بھی لرزتی ہے
کبھی بجلی تو گرتی ہے مگر میں ہی چمکتا ہوں
زمانے سے نہ ہم ڈرتے کہ ہم سے ہی زمانہ ہے
زمانہ ہو بھلے دشمن نہ آگے اس کے جھکتا ہوں
کبھی ایسا ہوا بھی کہ بہار آئی خزاں بن کر
مگر یہ ظرف ہے میرا خزاں میں بھی ابھرتا ہوں
کبھی نہ مجھ پہ چیزوں کا کوئی ہوتا ہے تاْثّر
کہ ان چیزوں کی نہ میں کچھ حقیقت ہی سمجھتا ہوں
جو ہے مخلوق کا درجہ اسے ویسے ہی رہنے دو
میں تو مخلوق کو خالق سمجھنے سے ہی بچتا ہوں
نظر بس اثر کی تو غیب پر جمتی چلی جائے
اسی سے کامیابی ہو یہی تو سب سے کہتا ہوں