میری آنکھوں میں بسا ہے رتجگوں کا موسم
رُت بدلے جانے کب آئے اُجلے دنوں کا موسم
شاید بھول ہی جاتے گزرے ہوئے سمے کو ہم
یادوں میں گر نا ہوتا پچھلی بہاروں کا موسم
میری آنکھوں میں بُن گیا وہ خواب ہی خواب
تب سے نگاہوں میں بسا ہے تعبیروں کا موسم
تنہائی کی رُت میں کھلے تیری جدائی کے گلاب
میرے انگ انگ میں رچا تیری خوشبووں کا موسم
جاوید بارش کی ہلکی سی پھوار سے پڑا ہے
ذرا سی دھوپ کے سنگ کچے رنگوں کا موسم