میری بے لوث محبت کی کا تم بھی سزا دو گے
اس دنیا کی نظر میں کیا مجھ کو گرا دو گے
وہ سارے عہد اور پیار کی باتیں
سچ بتاؤ کیا سب کو ہوا میں ُاڑا دو گے
میں کس سزا میں ہوں قصور سمجھ نہیں آتا
میری خاموشی پر کیا مجھے سولی پر چڑھا دو گے
تمہارے جانے کی دیر تھی سب نے بدل لی نگاہیں
دور جا کر کیا اب مجھے اب یوں بھی سزا دو گے
مارچ کے مہینے کا دیکھوں آغاز ہو گیا
اب بہاروں کے موسم میں کیا مجھے خزا دو گے
خدا سے ُامید رکھنا یقین ہیں میرا
کا نہیں آکر میرے یقین کی دیوار کو گرا دو گے
غلط فہمیوں میں نا رہو یہ قدرت کی باتیں ہیں
اپنی تقدیر سے کیا میرا نام کر ُجدا دو گے