سنو
یہ کیا غضب کیا تم نے
نکاحِ عشق کی مجھ سے
اور اِک بے ساختہ منزل پے لا کر چھوڑ دیا مجھکو
یقینِ رُخصتی کا خواب سُپردِ خاک کر ڈالا
میری خواہشوں کو حسرت میں تشنہِ راکھ کر ڈالا
میرے دل کو گرفتہِ یار کا قیدی بنا ڈالا
مجھے اپنی محبت کا تم نے عادی بنا ڈالا
مجھے اب آشنا کر کے زمانے کی روایت سے
آدھوری منزلوں اور قافلوں کا ساتھی بنا ڈالا
سنو جاناں
تمھارے ساتھ سفر کی اِک مسافت تہہ کر لی ہے
میرا اب لؤٹ کر جانا نہ مُمکن ہے نہ مُمکن ہے
کہ میرا ساتھ نبھاؤ تم، نہ یوں دامن چھوڑاؤ تم
تمھارے پاؤں پڑتی ہوں، خُدارہ مان جاؤ تم
میں نے دل ہی دل میں نکاحِ عشق کر لی ہے
صرف رُخصتی ادھوری ہے
میری رُخصتی ادھوری ہے