برداشتِ ستم تو فطرت میری نہیں اندازِ غلامی فطرت میری نہیں سہتے ہیں اسیری جو خودار کہاں انجامِ کفس تو فطرت میری نہیں خاموش ہیں لب اقدارِ ظلم سے کیوں الفاظِ زیاں بس فطرت میری نہیں