وفا کی آج بھی پہلی سی قسمت ہے زمانے میں
کسی نے اج تک کچھ بھی نہ پایا دل لگانے میں
پھر اس کے بعد تم آباد ہو اور نہ ہوں میں آباد
بہت روکا تھا میں نے پر تمھیں جلدی تھی جانے میں
تمھاری مسکراہٹ میں بھی ہوتی ہے بہت تلخی
مرے بھی غم چھلک جاتے ہیں میرے مسکرانے میں
تمھارے بن گزاری ہے جوانی میں نے افسرادہ
رہیں مجبوریاں حائل تمھیں اپنا بنانے میں
نجانے ٹوٹتی سانسوں کی مہلت رہ گئی کتنی
نجانے دیر ہے کتنی تمھیں اے دوست آنے میں
مراسم نہ رہے پہلے سے ، نہ پہلی سی الفت ہے
ملا ہے کیا ہمیں اک دوسرے کو آزمانے میں
نصیبوں کی ہیں باتیں کوئی اپنی موت تک رویا
کسی نے زندگی کر لی بسر ہنسنے ہنسانے میں
ہم اپنے فن کی کرتے آبیاری کس طرح زاہد
رہے مصروف ساری عمر تو روزی کمانے میں