تھکے تھکے سے لوگ ۔ ٹھہرے کارواں کیوں ہیں
حقیقتوں سے مکرتے ہوئے گماں کیوں ہیں
اسکی مٹی میں تو خوشبو کے بیج ڈالے تھے
تو پھر وطن کی فضائیں دھواں دھواں کیوں ہیں
ہم نے پھولوں کی رفاقت کے جلائے تھے چراغ
ہے بجلیوں کو گلہ مہکے آشیاں کیوں ہیں
دلوں میں ولولے بوئے تھے میرے قائد نے
مگر دلوں میں خرافات ہی نہاں کیوں ہیں
نگار شہر پہ لاحق ہے فکر دہشت کو
یہاں پہ زندگی کیونکر ۔ یہاں مکاں کیوں ہیں
میری نگاہ میں تو نیلگوں نظارہ تھا
تو ٰآج سرخ سرخ میرے آسماں کیوں ہیں
اے ذات پاک! ظلم و جبر کے اس موسم میں
میرے وطن کے لوگ اتنے بے زباں کیوں ہیں