میکدے میں جو شام ہو جائے
مان لو، اپنا کام ہو جائے
رائیگاں ہر نظام ہو جائے
یہ تمنا جو خام ہو جائے
فیض ساقی کا عام ہو جائے
تشنگی پھر تمام ہو جائے
ان کو میرا سلام ہو جائے
زندگی شاد کام ہو جائے
حسن کا جلوہ عام ہو جائے
اک نظر میرے نام ہو جائے
پھر خدا سے نہ اور کچھ مانگوں
تو کبھی ہم کلام ہو جائے
عمر بھر پھر رہوں گا میں ممنون
جو میرا ایک کام ہو جائے
تو اٹھا دے نقاب رخ جو کبھی
ہر جگہ قتل عام ہو جائے
دیکھتے ہی کہا یہ ساقی نے
شیخ کا احترام ہو جائے
میکدے کو چلا ہے جو واعظ
پھر سے کچھ دھوم دھام ہو جائے
اتنی رومی کو تو اجازت ہو
در پہ حاضر غلام ہو جائے