میں اِنتظار کی حد سے گذُر نہ جاؤں کہیں
کہ راکھ بن کے ہوا میں بِکھر نہ جاؤں کہیں
بہت قریب نہ آؤ کہ ڈر سا لگتا ہے
تمہارے دِل سے کِسی دِن اُتر نہ جأؤں کہیں
کیا تھا آپ سے وعدہ جو بھوُل جانے کا
مجھے یہ ڈر ہے کہ اُس سے مکر نہ جاؤں کہیں
مجھے اگر مری عمرِ عزیز مہلت دے
رہوں میں ساتھ تِرے ، چھوڑ کر نہ جاؤں کہیں
ابھی تو دُور ہے منزل کڑی مسافت ہے
میں آدھی راہ میں تھک کر ٹھہر نہ جأوں کہیں
مِرے خدُا مجھے سچ بولنے کی طاقت دے
میں واقعاتِ زمانہ سے ڈر نہ جاؤں کہیں