میں تو غیر ہوں اور غیر کا کون خیال کرتا ہے
یہ زمانہ تو اپنوں کا بھی بہت برا حال کرتا ہے
کس سے امید کرے کوئی کہ بنے گا وہ سہارا
ہر شخص تو دیکھ یہاں ہاتھ پھیلائے سوال کرتا ہے
محبت کون سی کون سی چاہت کیا بات کرتا ہے
ان پتھروں سے دل لگا بیٹھا تو بھی کمال کرتا ہے
کب جذبات کی قدر ہے ہاں ہر طرف مطلب بھری نظر
یہ مادی ہے دنیا یہاں ہر کوئی مال مال کرتا ہے
اس جہاں سے ساجد الگ اپنا جہاں اک بنا کر
محبت اسے کر جو تجھےمحبت لازوال کرتا ہے