میں تیتری رہنے میں خوش ہوں
عمر کی نِصف شب
کلبۂ جاں کے گونگے کواڑوں پہ یہ
کوئی دستک ہُوئی
یا کہ میں نیند میں ڈر گئی
سوچتی ہوں
یہ کیسی محبت ہُوئی
جس کی بنیاد میں خوف کے اتنے پتّھر رکھے ہیں
کہ لگنے سے پہلے
عمارت کے سارے دریچوں کے شیشے لرزنے لگے ہیں
ایسا لگتا ہے یہ خوف
باہر سے بڑھ کے کہیں میرے باطن میں ہے
اُس کی ذہنی وجاہت کی دہشت
اُس کی خوش روئی کی سانس کو روکنے والی ہیبت
پیچھا کرتی ہُوئی آنکھ سے میری بے پردہ وحشت
تو باطن کے ڈر کا لبادہ ہیں
دراصل میں
اُس کو تسلیم کر کے
عمر بھر کی کمائی
اس آزادئی ذہن و جاں کی
گنوانا نہیں چاہتی
اورمجھے یہ خبر ہے
کہ میں اِک دفعہ
ہاتھ اُس کے اگر لگ گئی تو
وہ مکّھی بنا کے مجھے
اپنی دیوارِ خواہش سے تاعمر اس طرح چپکائے رکھے رہے گا
کہ میں
روشنی اور ہوا اورخوشبو کا
ہر ذائقہ اس طرح بُھول جاؤں گی
جیسے کبھی ان سے واقف نہ تھی
سو میں تیتری رہنے میں ہی بہت خوش ہوں
گرچہ یہاں
رزق اورجال کی سازشیں بے پناہ ہیں
مگر
میرے پَر توسلامت رہیں گے