میں تیرے امتحان سے گزرا ہوں بارہا
یعٰنی میں اس جہان سے گزرا ہوں بارہا
میں کم نصیب تیری محبت کی کھوج میں
ہر کوچۂ گمان سے گزرا ہوں بارہا
کچھ سال میری عمر کے ملتے نہیں مجھے
شاید میں لامکان سے گزرا ہوں بارہا
اِس ہاتھ کی لکیر نے سورج بجھا دیا
ورنہ میں آسمان سے گزرا ہوں بارہا
میرے لئے تو مجھ سے زیادہ نہیں کوئی
لوگوں کے درمیان سے گزرا ہوں بارہا
اے دوست! اعتبار کی منزل بھی ہے کہیں؟
تیرے لئے تو جان سے گزرا ہوں بارہا