آگاہ ہوتے گئے جیسے ہم زمانے سے
تو دور ہونے لگے ہنسنے اور ہنسانے سے
بناؤ دوست تو ان کو نہ آزماؤ کبھی
کہ دوست رہتے نہیں دوست آزمانے سے
اسے تو جانا ہی تھا مجھ سے دور ہر صورت
چلو یہ اچھا ہوا چھوڑا اک بہانے سے
نہ روشنی کی کرن ہے نہ راستوں کا پتا
گریز پا ہیں مسافر دیہ جلانے سے
ہر ایک موج کو چھو کر پلٹ ہی جانا ہے
گلہ یہی تو ہے ساحل کو اک زمانے سے
میں تیرے پاس بھی اکثر اداس رہتا تھا
اداس اور بھی ہوں تیرے چھوڑ جانے سے
ہے بے سکونی بہت دل کہیں نہیں لگتا
سکون دل کو ملے تیرے پاس آنے سے
ہیں مسجدوں و کلیساؤں ، مندروں میں عیار
نکلتے دیکھا ہے صوفی کو بادہ خانے سے
ہوں ہوش میں تو غموں کا عذاب ہے زاہد
سکون میں ہیں سبھی لوگ یہ دیوانے سے